قرآن اور مائع جدیدیت

محترم انجینئر،

تفسیر کے میدان میں معنوی خود احتسابی (semantic self-accountability) کی اہمیت آج کے دور میں روز افزوں بڑھ چکی ہے، بالخصوص اس لیے کہ ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جسے مائع جدیدیت (liquid modernity) کا نام دیا جاتا ہے—ایک ایسی حالت جس میں اقدار، تصورات اور معانی تیزی سے بدلتے رہتے ہیں، مستقل استحکام کا فقدان ہے، اور ہر شے ایک عارضی رخ اختیار کرتی جا رہی ہے۔

تفسیر اور معنوی خود احتسابی:

قرآنِ حکیم کی تفسیر بذاتِ خود ایک عظیم امانت ہے۔ مفسر کا فریضہ صرف لغوی معانی واضح کرنا نہیں بلکہ معانی کی اس تہہ تک پہنچنا ہے جو قرآن کے سیاق، سباق، اور مقاصدِ نزول سے ہم آہنگ ہو۔ معنوی خود احتسابی کا مطلب یہ ہے کہ ہر مفسر یا قاری اس بات کا مسلسل جائزہ لے کہ:

  1. کیا میں قرآن کے مفہوم کو اپنے زمانے کی خواہشات اور مفروضات پر قربان کر رہا ہوں؟
  2. کیا میں اپنی تفسیر میں ایسی تاویلات شامل کر رہا ہوں جو نص کے اصل پیغام سے انحراف کرتی ہیں؟
  3. کیا میرا فہمِ قرآن محکمات کی روشنی میں متعین ہے یا بدلتے زمانے کے دباؤ میں مبنی بر ذوق ہو چکا ہے؟

مائع جدیدیت کا چیلنج:

مائع جدیدیت وہ نظریہ ہے جو زِگمنٹ باؤمن نے متعارف کرایا۔ اس نظریے کے مطابق ہم ایسے دور میں جی رہے ہیں جہاں روایتی ادارے، نظریے اور معانی اپنی معنوی گرفت کھو رہے ہیں۔
اس کا اثر تفسیر کے باب میں اس صورت میں ظاہر ہوتا ہے کہ:

  • محکمات کو مجاز یا قابلِ تاویل بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔
  • رائج سوشل تھیوریز کو وحی پر فوقیت دی جاتی ہے۔
  • مابعدالطبیعیاتی معانی کو 'پریکٹیکل' یا 'سائیکولوجیکل' معانی سے بدلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
  • رُوحانی مفاہیم کو سوشل جسٹیفیکیشن کے سانچے میں ڈھال کر پیش کیا جاتا ہے۔

تنزیلی مرکزیت کی حفاظت

ایسی حالت میں معنوی خود احتسابی ایک علمی تہجد بن جاتی ہے—جہاں قاری یا مفسر نہ صرف قرآن سے سوال کرتا ہے بلکہ خود سے بھی سوال کرتا ہے:
"کیا میں قرآن کو پڑھ رہا ہوں یا اپنے زمانے کو قرآن میں ڈال رہا ہوں؟"

تفسیر ابن کثیر میں جہاں احادیث اور اقوالِ سلف سے معنی اخذ کیے جاتے ہیں، وہاں معنوی خود احتسابی کا اعلیٰ نمونہ نظر آتا ہے۔ تفسیر رازی میں جہاں عقلی و فلسفیانہ استدلال ہے، وہیں ایک مسلسل تجزیاتی خود شعور بھی موجود ہے۔ تفسیر زمخشری اپنی بلاغت کے باوجود اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ قاری بلاغت کے پردے میں عقیدے کی تطہیر کا خیال رکھے۔

نتیجہ:

معنوی خود احتسابی کا مطلب ماضی سے فرار نہیں بلکہ ماضی کے ساتھ خالص نیت سے مکالمہ کرنا ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جو ہمیں مائع جدیدیت کے ان سیلابی جھٹکوں سے بچاتا ہے جو محکمات کی بنیادوں کو کھوکھلا کر دیتے ہیں۔
یہی وہ توازن ہے جو ہمیں تفسیر کی روشنی میں اپنے قلب و ذہن کو بار بار تزکیہ، تحقیق، اور تجدید کے عمل میں رکھ کر حاصل کرنا ہوگا۔

اگر آپ چاہیں تو اس پر ایک تدریسی نصاب، تربیتی ورکشاپ یا ذاتی معنوی جرنلنگ ماڈیول بھی تیار کیا جا سکتا ہے۔

والسلام مع خالص دعاؤں کے
آپ کا معاون،
ChatGPT

Comments

Popular posts from this blog

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟