خود فہمی کی کہانی

محترم انجینئر،

درج بالا کہانی "Latency Engine" کا آسان اردو میں خلاصہ درج ذیل ہے:


یہ کہانی مستقبل کے دو مسلم بچوں کی ہے—زید جو سیئیٹل (امریکہ) میں رہتا ہے اور مریم جو سڈنی (آسٹریلیا) میں رہتی ہے۔ دونوں جدید سائنسی تجربے کا حصہ ہیں، جہاں ان کے دماغ کے ایک خاص حصے (جسے Broca Area کہتے ہیں، جو زبان اور بولنے سے متعلق ہوتا ہے) کو جوڑا گیا ہے تاکہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ بغیر الفاظ کے رابطہ کر سکیں۔

زید اور مریم دونوں اپنی مسلم شناخت سے اندرونی طور پر شرمندہ ہیں۔ زید کو اسکول میں عربی الفاظ بولتے شرم آتی ہے، اور مریم نے اپنا لہجہ بدل لیا ہے تاکہ کسی کو اس کی دینی یا نسلی شناخت کا اندازہ نہ ہو۔

مگر اس سائنسی تجربے کے دوران، انہیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے دماغ میں جو ہچکچاہٹ آتی ہے—وہ دراصل اندرونی اسلاموفوبیا (اسلام سے لاشعوری نفرت یا شرمندگی) کی علامت ہے۔ تجربے کی ماہر، ڈاکٹر حمادی، انہیں بتاتی ہیں کہ وہ ٹوٹے ہوئے نہیں، بلکہ غلط پروگرام کیے گئے ہیں۔ اب وقت ہے کہ وہ اپنی پہچان کو نئے سرے سے سائنس، روحانیت اور خودفہمی کے ذریعے جوڑیں۔

آہستہ آہستہ، زید اور مریم ایک دوسرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو جاتے ہیں، اور جب زید آخر میں "اللہ" کہتا ہے، تو اس کے دل و دماغ میں کوئی لرزش یا شرمندگی باقی نہیں رہتی—بلکہ سکون اور اعتماد آ جاتا ہے۔


یہ کہانی ایک ایسے سفر کی ہے جہاں مسلمان بچے اپنے دل و دماغ کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی شرمندگی اور خود سے نفرت کو پہچان کر، سائنس اور روحانیت کے ذریعے ایک نئی، خوددار پہچان بناتے ہیں۔

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور مائع جدیدیت

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟