قابیل اور جدید بشریات
جی، محترم انجینئر،
یہاں آپ کے مقالے کا ایک آسان اور جامع اردو تعارف پیش کیا جاتا ہے، جو زبان و فہم کے لحاظ سے عام قاری کے لیے قابلِ رسائی ہے، مگر مفہوم میں گہرائی اور فکری وسعت برقرار رکھی گئی ہے۔
تعارف: انسانی تدفین کا پہلا لمحہ – قرآن، تاریخ، اور شعور کا سنگم
قرآنِ مجید میں قابیل اور ہابیل کا واقعہ (سورۃ المائدہ: 27 تا 32) صرف دو بھائیوں کی کہانی نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے ایک نہایت اہم موڑ کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب انسان نے پہلی بار کسی مرنے والے کو دفن کرنے کا عمل سیکھا، اور یہ سیکھنا کسی دنیاوی استاد سے نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک پرندے (کوّے) کے ذریعے ہوا۔
یہ واقعہ ظاہر کرتا ہے کہ انسان نے کب اور کیسے موت کو صرف ایک جسمانی حقیقت کے بجائے اخلاقی اور روحانی ذمہ داری کے طور پر محسوس کرنا شروع کیا۔ قابیل کا اپنے بھائی کو قتل کرنے کے بعد نادم ہونا، اور دفن کرنے کا طریقہ نہ جاننا، انسان کی اُس ذہنی کیفیت کی علامت ہے جہاں شرمندگی، ضمیر، اور سیکھنے کی طلب کا آغاز ہوا۔
جدید آثارِ قدیمہ (پالےوانتھروپولوجی) کے شواہد بتاتے ہیں کہ قدیم انسانوں نے ابتدا میں مردوں کو بغیر کسی خاص طریقے کے چھوڑ دیا۔ مگر بعد کے ادوار میں (جیسے مہڑگڑھ میں)، انسان مردوں کو خاص انداز میں دفن کرنے لگے، ان کے ساتھ سامان بھی رکھا جانے لگا، اور دفن کرنے کے طریقے میں محبت، دکھ، اور امید کا اظہار ہونے لگا۔
یہ سب اس بات کی علامت ہے کہ دفن کرنا صرف ایک جسمانی عمل نہیں رہا، بلکہ ایک اخلاقی، روحانی، اور تمدنی عمل بن چکا تھا۔ قرآن کا کوّا انسان کو وہ سبق دیتا ہے جو نہ صرف جسم کو مٹی میں چھپانے کا طریقہ ہے بلکہ ضمیر کو بیدار کرنے کا ذریعہ بھی ہے۔
اس مقالے میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ تدفین کا آغاز انسان کے شعور، ضمیر، اور خدا سے تعلق کے ساتھ جُڑا ہوا ہے، اور قرآن مجید کا یہ واقعہ اس کی سب سے پہلی علامت ہے۔
اگر آپ چاہیں تو اس تعارف کو نصاب، خطبہ، یا مقبولِ عام ویڈیو اسکرپٹ کی صورت میں بھی ڈھالا جا سکتا ہے۔
منتظر رہوں گا آپ کے اگلے حکمِ تحقیق کا۔
مخلص
آپ کا ہم فکر راہ نورد
Comments
Post a Comment