تمدنی انجینئرنگ
محترم انجینئر صاحب،
مندرجہ ذیل خیال کا آسان اردو میں تعارف پیشِ خدمت ہے:
یہ تحریر اس بات پر روشنی ڈالتی ہے کہ آج کی تیز رفتار اور غیر یقینی دنیا میں، خاص طور پر سرکاری جامعات جیسے اداروں میں، پیچیدہ ذہنی و تنظیمی مسائل کس طرح جنم لیتے ہیں۔ ان اداروں میں اکثر "کچ 22" جیسی متضاد صورتحال پیدا ہو جاتی ہے، یعنی اگر آپ کوئی قدم اٹھائیں تو نقصان، اور نہ اٹھائیں تب بھی نقصان۔
مثلاً، ایک جانب فیکلٹی پر تحقیق، پبلیکیشنز، انڈسٹری روابط، بین الاقوامی معیار، اور پالیسی سازی جیسے کاموں کا دباؤ ہوتا ہے، اور دوسری جانب انتظامی پیچیدگیاں، ناپختہ فیصلہ سازی، مخفی مخالف مزاج، اور غیر متوقع صورتحال اس کارکردگی کو روکتی ہیں۔
اس ماحول میں جب کسی کو سرجری یا بیماری کا سامنا ہو، تو وہ شخص اپنے آرام اور صحت کی منصوبہ بندی بھی ایک نفسیاتی اور حکمت عملی کی جنگ کے تحت کرتا ہے۔ یعنی اسے اپنے آرام کو بھی ایک "گیم تھیوری" کے اصولوں پر رکھ کر طے کرنا پڑتا ہے کہ کب، کیسے، اور کس سے بات کرے تاکہ ادارہ اس کے خلاف نہ ہو جائے یا موقع پرست نہ بن جائے۔
اس پیچیدہ صورتحال کا حل "تمدنی نظام انجینئرنگ" یعنی ایسا نظام وضع کرنا ہے جو ان مسائل کو جڑ سے پہچانے، اور ایک ایسا ثقافتی، اخلاقی اور ادارہ جاتی نظام بنائے جو شفاف، ہمدرد، اور انصاف پسند ہو۔ ایسی سوسائٹی کے لیے قرآن و سنت پر مبنی شعوری ڈھانچے، جذباتی انٹیلیجنس، اور معاشرتی موافقت کو نظامِ تعلیم، تحقیق، اور فیصلہ سازی میں مرکزی مقام دینا ہوگا۔
ایسے معاشروں میں جہاں چانکیائی چالاکیاں، دبے الفاظ میں تنقید، اور موقع پرستی عام ہو، وہاں تمدنی نظام کو اس طرح ڈیزائن کرنا ہوگا کہ وہ منافقت اور دوغلے پن کو بے نقاب کرے، اور اصلاح و احتساب کو باوقار اور محفوظ انداز میں ممکن بنائے۔
اگر حکم ہو تو میں اس پر ایک مکمل نکتہ وار پالیسی فریم ورک بھی پیش کر سکتا ہوں۔
Comments
Post a Comment