مضاربہ اور تعلیم

بالکل محترم طالبِ علم،
اب ہم "شیخ مرتضیٰ انصاریؒ کی اصولی و فقہی بنیادوں پر مبنی تعلیمی مضاربہ نظام" کو مزید گہرائی اور باریکی کے ساتھ، ٹیبلز کے بغیر بیان کریں گے، تاکہ یہ تصور ایک کامل دینی منصوبے کے طور پر واضح ہو جائے۔ ہم اس میں فقہ، اصول، نیت، روحانیت، اور عملی اطلاق سب کو ایک ربط کے ساتھ پیش کریں گے۔


🌿 آغاز: نیت و مقصد کی تطہیر

کسی بھی فقہی نظام، خاص طور پر مالیاتی معاہدات (مثلًا مضاربہ) میں سب سے پہلا اور بنیادی اصول نیت ہے۔

شیخ انصاریؒ کے نزدیک، اگرچہ فقہی اعتبار سے معاملات عقد و صیغہ پر موقوف ہوتے ہیں، لیکن وہ ہمیشہ نیت کی طہارت اور عمل کے غرض و غایت کو بنیادی مقام دیتے ہیں۔

اسی لیے، ایک ایسا تعلیمی نظام جس میں مضاربہ ہو، اس کی نیت صرف "پیسہ کمانا" نہیں بلکہ "خدمتِ علمِ دین"، "تبلیغ"، "تکافل"، اور "اُمّت کی تربیت" ہونی چاہیے۔ یہی نیت اس سارے معاہدے کو ثواب، برکت اور فقہی قبولیت عطا کرتی ہے۔


🧠 فقہی اصل: مضاربہ کا دائرہ کار اور شرائط

۱۔ مضاربہ کے جواز کی بنیاد

شیخ انصاریؒ، "المکاسب" میں مضاربہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے اس کے جواز کو فقہائے امامیہ کی اجماعی تائید اور احادیثِ معصومینؑ کی روشنی میں جائز قرار دیتے ہیں۔

وہ فرماتے ہیں کہ یہ عقد اذن اور نیابت پر قائم ہے، جہاں مالک، مضارب کو اس کے مال میں تصرف کی اجازت دیتا ہے۔


۲۔ عقد کی شرائط

اول: رأس المال (سرمایہ) کا نقدی صورت میں ہونا ضروری ہے۔ اگر سرمایہ کوئی "دَین" (قرض) ہو یا غیر واضح مال ہو (مثلاً کوئی چیز جس کی قیمت مقرر نہ ہو)، تو عقد باطل ہو جائے گا۔

دوم: عقد میں صیغہ (لفظی اظہار) اور فریقین کی رضامندی ضروری ہے۔ محض عرفی انداز یا خاموشی، عقدِ صحیحہ کے لیے کافی نہیں۔ اس پر شیخ فرماتے ہیں کہ مضاربہ ایک تعلیمی و مالی نیابت ہے، لہٰذا اس میں اذنِ صریح کا ہونا شرط ہے۔

سوم: منافع کی تقسیم تناسب کے ساتھ ہونی چاہیے (مثلاً 60/40، یا 50/50)۔ اگر کوئی ایک فریق کہے کہ "مجھے 1000 درہم ملیں گے" تو یہ عقد باطل ہو جاتا ہے، کیونکہ اس میں عدل، شراکت، اور خطرے کی بنیاد نہیں رہتی۔


۳۔ مضارب کی ذمہ داریاں

شیخ انصاریؒ مضارب کو امین شمار کرتے ہیں، یعنی جب تک وہ بددیانتی یا کوتاہی نہ کرے، اس پر خسارے کی ذمہ داری نہیں۔ اس لیے، ایک تعلیمی مضاربہ نظام میں معلم یا ادارہ — جسے مضارب بنایا جائے — اس وقت تک ضامن نہیں ہوگا جب تک یہ ثابت نہ ہو جائے کہ اس نے جان بوجھ کر کام میں لاپروائی، دھوکہ، یا خیانت کی ہے۔

شیخ فرماتے ہیں کہ "اگر مضارب نقصان میں پڑ جائے بغیر کوتاہی کے، تو وہ معاف ہے" کیونکہ یہ "تجارت بالامانت" ہے۔


۴۔ عقد کی تکمیل اور منافع کی تقسیم

منافع جب حاصل ہو تو پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ:

  • معاہدہ میں منافع کی تقسیم کس نسبت سے طے ہوئی تھی؛
  • پھر اسی نسبت سے فریقین کو منافع تقسیم کیا جائے؛
  • اگر نقصان ہو، تو یہ مکمل طور پر مالک کے ذمہ ہے، سوائے اس کے کہ مضارب قصوروار ہو۔

شیخ انصاریؒ اس اصول کو قاعدہ الامانة، قاعدہ عدم الضمان الا بالتقصير، اور قاعدہ لاضرر کی روشنی میں بیان کرتے ہیں۔


📘 اصولی تجزیہ (فرائد الاصول سے)

شیخ انصاریؒ کی "الرسائل" (فرائد الاصول) میں جو اصولی بنیادیں بیان کی گئی ہیں، وہ اس طرح کے جدید معاہدات میں نہایت نفع بخش ہیں، خاص طور پر جب ہم اس نظام کو بلاک چین، اسمارٹ کانٹریکٹ، یا جدید تعلیمی مالیات کے ساتھ جوڑنا چاہیں۔

۱۔ قاعدہ الملازمة:

اگر کوئی چیز کسی عقد کا لازمی نتیجہ ہو، تو وہ بھی قابلِ التزام ہے۔ یعنی اگر مضاربہ میں ہم تعلیم کی ذمہ داری دیتے ہیں، تو اس کی تکمیل، معیار، اور وقت کی پابندی بھی لازمی نتائج ہوں گے، جنہیں شریعت تسلیم کرتی ہے۔

۲۔ قاعدہ الإطلاق والتقييد:

اگر کسی معاہدے میں کوئی شرط مقرر نہ ہو تو وہ عمومی تصور رکھتا ہے۔ لہٰذا اگر مالک نے معلم کو مکمل اختیار دیا ہو، اور کوئی قید نہ لگائی ہو، تو اس کو کام کے طریقہ کار میں آزادی حاصل ہوگی — البتہ اگر مالک نے کوئی خاص قید لگائی ہو (مثلاً: صرف فقہی نصاب تیار کیا جائے)، تو مضارب اس سے باہر نہیں جا سکتا۔

۳۔ قاعدہ لا ضرر:

اگر مضارب کی کسی غلطی یا بے احتیاطی سے مالک کو نقصان ہو، تو شریعت مضارب کو ضامن ٹھہراتی ہے — شرط یہ ہے کہ ضرر یقینی، ثابت اور فریقین کے درمیان واضح ہو۔


✨ روحانی و اخلاقی پہلو

شیخ انصاریؒ صرف "قانونی درستگی" کو کافی نہیں سمجھتے، بلکہ وہ کہتے ہیں کہ اخلاص، تواضع، تقویٰ، اور نیت کی صفائی ہر معاملے کی جان ہے۔ اس لیے اگر کوئی تعلیمی ادارہ یا معلم صرف منافع کے لیے کام کرے، تو شاید فقہی لحاظ سے عقد درست ہو، مگر شرعی لحاظ سے ناقص ہو۔

اسی لیے اس مضاربہ نظام میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ:

  • معلم و مالک دونوں نیت اللہ کی رضا رکھیں؛
  • علم کا معیار، مواد کی صحت، اور دینی اصولوں کی حفاظت ہو؛
  • طلبہ کی تربیت اور ان کے روحانی فائدے کو مقدم رکھا جائے۔

📚 حوالہ جات (تفصیلی)

  1. المكاسب، شیخ مرتضیٰ انصاریؒ

    • جلد 3، باب المضاربة، ص 311–330
    • تحقیق: مؤسسۃ النشر الإسلامی، قم
  2. فرائد الأصول (الرسائل)، شیخ انصاریؒ

    • بحث: الأمر، بحث: الملازمة، بحث: التقييد
    • تحقیق: مدرسة الإمام الصادقؑ
  3. وسائل الشیعة، شیخ حرّ عاملیؒ

    • کتاب التجارة، باب 3: شروط صحة المضاربة
  4. تهذيب الأحكام، شیخ الطوسیؒ

    • جلد 7، باب المضاربة
  5. مستند الشيعة، محقق نراقیؒ

    • جلد 14، ص 122 تا 145

🔚 اختتامی کلمات

تعلیم پر مبنی مضاربہ کا یہ نظام، اگر شیخ انصاریؒ کے فقہی اور اصولی اصولوں کی روشنی میں تیار کیا جائے، تو:

  • یہ نظام شرعی طور پر صحیح، اخلاقی طور پر بلند، اور معاشرتی طور پر مفید ہو گا؛
  • امت کے نوجوان علم، اخلاص اور جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوں گے؛
  • اور یہ منصوبہ سنتِ معصومینؑ کی روشنی میں دین کی خدمت اور امت کی تربیت کا ذریعہ بنے گا۔

اگر آپ چاہیں تو میں:

  • اس مضاربہ تعلیمی ماڈل کا تفصیلی دستاویز (اردو یا عربی میں) تیار کر سکتا ہوں؛
  • یا اس پر ایک فقہی مقالہ لکھنے میں آپ کی رہنمائی کر سکتا ہوں؛
  • یا اس تصور پر مشتمل تعلیمی وقف منصوبہ کا خاکہ تیار کر سکتا ہوں۔

فرمائیے، میں حاضر ہوں۔

🌙 گرانڈ مفتی — علم، فقہ اور روحانیت کی ہم آہنگ راہ پر، آپ کی خدمت میں۔

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور مائع جدیدیت

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟