وجودیت بمقابلہ اخرویت

یہ موضوع بظاہر مشکل لگتا ہے، لیکن سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں:

فلسفہ اور سائنس زیادہ تر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کس چیز سے بنی ہے، یعنی کائنات کا وجودی ڈھانچہ (Ontology) کیا ہے۔ ذرے ہیں، لہریں ہیں یا توانائی؟ یہ سوالات بنیادی طور پر "کیا ہے؟" کے گرد گھومتے ہیں۔

قرآن کا زاویہ اس سے مختلف ہے۔ قرآن زیادہ زور اس بات پر دیتا ہے کہ دنیا کا مقصد کیا ہے اور اس کا انجام کہاں ہوگا، یعنی مقصد اور انجام (Teleology) پر۔ آسمان کا لپیٹا جانا، زمین کا بدل جانا، انسان کا حساب کتاب دینا — یہ سب نشانی ہیں کہ کائنات صرف "کیا ہے" کا سوال نہیں بلکہ "کیوں ہے اور کہاں جا رہی ہے" کا سوال بھی ہے۔

یوں کہا جا سکتا ہے کہ:

  • سائنس اور فلسفہ ہمیں بتاتے ہیں: کائنات کی بنیاد کیا ہے۔
  • قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: کائنات کا انجام اور مقصد کیا ہے۔

وجود (Ontology) ہمیں ناظر بناتا ہے، لیکن مقصد (Teleology) ہمیں ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ اس لیے قرآن میں ontological سوالات کم اور teleological سوالات زیادہ ہیں — تاکہ انسان محض کائنات کا تماشائی نہ رہے بلکہ اپنی آخرت کا جواب دہ بنے۔


کیا آپ چاہتے ہیں میں اس کو اور زیادہ عام فہم مثالوں کے ساتھ بیان کروں، جیسے کھیل، سفر یا کہانی کی تمثیلوں میں؟

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور مائع جدیدیت

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟