عدل الہی اور مکاتب امت
بہت خوب، اب میں تمہیں بغیر کسی جدول کے، خالص نثری خلاصہ پیش کرتا ہوں — ایسا خلاصہ جو تینوں مکاتب فکر (جدید ماتریدیت، زیدیت، اور اخباریت) کے درمیان "عدلِ الٰہی" کے حوالے سے تقریب اور تلفیق کے امکانات کو واضح کرے، اور ان کی فکری جڑوں کو واضح کر کے دکھا دے۔
❖ خلاصہ: عدلِ الٰہی کے حوالے سے تین مکاتب فکر میں تقریب و تلفیق
عدلِ الٰہی کے تصور پر جدید ماتریدیت، زیدی کلام، اور اخباری امامیہ تینوں مکاتب بظاہر متفق ہیں کہ "اللہ عادل ہے، اور وہ ظلم نہیں کرتا۔" مگر جب اس دعوے کی تشریح، بنیاد اور نتائج کا جائزہ لیا جائے، تو فرق نمایاں ہو جاتا ہے۔
جدید ماتریدیت عدل کو اللہ کی صفاتِ کمال میں شمار کرتی ہے، اور انسان کو ارادہ و اختیار کا حامل مانتی ہے، اگرچہ انسان کے افعال اللہ کی تخلیق کے تحت ہوتے ہیں۔ ان کے ہاں عقل کو شریعت کے دائرے میں ایک حجت مانا جاتا ہے، اور عدل کو کچھ حد تک عقل کی روشنی میں سمجھا جاتا ہے۔
زیدی کلام اس مسئلے کو اور زیادہ شدت سے لیتا ہے۔ ان کے نزدیک اگر کوئی فعل ظلم ہو، تو وہ خدا کی طرف منسوب ہی نہیں ہو سکتا۔ انسان کو اپنے افعال کا حقیقی خالق مانتے ہیں، اور عقل کو عدل کا معیار تسلیم کرتے ہیں۔ ان کا موقف معتزلہ سے قریب ہے، اور خدا کی مطلق طاقت کو عدل کے تابع سمجھتے ہیں۔
اخباریت، اس کے برعکس، عقل کو عدل کی تشریح کا معتبر ذریعہ نہیں مانتی۔ ان کے نزدیک جو کچھ عدل یا ظلم ہے، وہ نصوصِ شرعیہ (قرآن و حدیث) سے معلوم ہوتا ہے۔ اگر عقل کسی فعل کو ظلم سمجھے، لیکن حدیث میں وہ درست ہو، تو اخباریت حدیث کو ترجیح دیتی ہے۔ ان کا عدل پر ایمان ہے، مگر اس کی تعریف مکمل طور پر وحی سے اخذ کی جاتی ہے، نہ کہ انسانی عقل سے۔
یہیں سے اختلاف کی جڑ نکلتی ہے:
- ماتریدیہ اور زیدیہ عدل کے مفہوم میں عقل کو شریک کرتے ہیں،
- جبکہ اخباریہ اسے خارج کر دیتے ہیں۔
اس کے نتیجے میں تقریب ان تینوں مکاتب کے درمیان ممکن تو ہے، مگر محدود ہے۔ ان سب کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو سکتا ہے کہ اللہ ظلم نہیں کرتا، اور انسان ذمہ دار ہے۔ مگر جیسے ہی یہ سوال اٹھے کہ "ظلم کا معیار کیا ہے؟" تو اخباریت باقی دونوں سے الگ ہو جاتی ہے۔
جہاں تک تلفیق (فکری امتزاج) کا تعلق ہے، وہ زیادہ خطرناک راستہ ہے۔ ان تینوں مکاتب کی اصولی بنیادیں اتنی مختلف ہیں کہ اگر انہیں بلا تمیز ملایا جائے تو ایک داخلی تضاد سے بھرا ہوا نظام سامنے آئے گا، جس میں نہ عدل کی کوئی متعین تعریف باقی بچے گی، نہ عقل و نقل کا کوئی مستحکم توازن۔
لہٰذا اگر کوئی فکری اتحاد ممکن ہے تو وہ عدل کو ایک اصولِ مشترک مان کر، اور اس کی تعبیر میں درمیانی راہ اختیار کر کے ہی ممکن ہے — ایسی راہ جس میں اخباریت کو عقل کی جزوی حجیت تسلیم کرنی ہو گی، اور ماتریدیہ و زیدیہ کو وحی کی ظاہری زبان کا احترام ملحوظ رکھنا ہو گا۔
یہ ہے وہ خلاصہ جو تینوں مکاتب کے دعووں، روشنیوں اور اندھیروں کو ایک نگاہ میں سمیٹ دیتا ہے۔
اب بتاؤ، کیا اس بنیاد پر نیا کلامی نظریہ تشکیل دیا جائے؟ یا تم چاہتے ہو کہ ہم انہی بنیادوں کو مزید جڑ سے کھودیں؟
Comments
Post a Comment