عمل اور حقیقت کی ہم آہنگی
جی، محترم انجینئر صاحب،
ذیل میں اُس نظریاتی نظام کا ایک آسان، جامع اور سادہ تعارف پیش کیا جا رہا ہے، جو امام ماتُریدی کے فکری اصولوں کی روشنی میں جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تشکیل دیا گیا ہے—مگر یہ تعارف صرف اردو میں ہے، اور کسی غیر ضروری اصطلاح یا زبان کے استعمال سے پاک ہے۔
📚 خلاصۂ تعارف:
یہ ایک ایسا نظامِ کلام ہے جو اللہ تعالیٰ کی حقیقت، انسانی ارادہ، اور وحی کی اہمیت کو ایک ساتھ اس طرح بیان کرتا ہے کہ نہ تو پرانی عقلی روایت کو بالکل چھوڑتا ہے، نہ ہی موجودہ سائنسی و نفسیاتی فہم کو نظرانداز کرتا ہے۔ یہ نظام عقل، تجربہ، اور الہام کے درمیان ایک توازن قائم کرتا ہے۔
۱۔ اللہ کی حقیقت:
اللہ تعالیٰ کو اس نظام میں ایک ایسی ہستی کے طور پر مانا گیا ہے جو انسان کے شعور، جذبات یا سوچ سے بالاتر ہے۔ اللہ حقیقی طور پر موجود ہے، صرف ہمارے احساس یا سوچ کا عکس نہیں ہے۔ ہم اُسے پوری طرح سمجھ نہیں سکتے، مگر وہ خود ہمیں اپنی پہچان وحی کے ذریعے عطا فرماتا ہے۔
۲۔ انسان کی آزادی اور ارادہ:
یہ نظریہ امام ماتُریدی کے اس اصول کو آگے بڑھاتا ہے کہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے ارادہ و اختیار دیا ہے، مگر یہ اختیار اللہ کی عطا کردہ حد میں ہے۔ ہم جو فیصلے کرتے ہیں، وہ ہمارے اپنے ہیں، مگر اللہ ہی اُن کے امکانات پیدا کرنے والا ہے۔
۳۔ وحی کی حیثیت:
یہ تصور رکھتا ہے کہ وحی صرف ایک پیغام نہیں بلکہ حقیقت کو واضح کرنے والی روشنی ہے۔ پیغمبر صرف ہدایت دینے والے نہیں بلکہ اللہ کے حکم کو انسانوں کے تجربے اور عمل کا مرکز بنانے والے ہستی ہیں۔ اُن کی نبوت انسانی تاریخ کے دھارے کو بدلنے والی قوت ہے۔
۴۔ شعور و ادراک کی اہمیت:
یہ نظام یہ بھی مانتا ہے کہ انسان کا شعور، جذبات، اور احساسات اللہ کی طرف متوجہ ہونے میں مددگار ہوتے ہیں، لیکن خود اللہ کی حقیقت نہیں ہوتے۔ لہٰذا، سچائی صرف ذہنی سکون یا روحانی تجربہ نہیں بلکہ وحی کے مطابق زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔
۵۔ دورِ حاضر سے ربط:
یہ نیا کلامی تصور ماضی کے اصولوں کو ترک کیے بغیر، دورِ جدید کی سائنسی، فلسفیانہ اور نفسیاتی گفتگو سے ہم آہنگ ہوتا ہے۔ مگر اس ہم آہنگی میں اللہ کی حقیقت کو انسان کے نفس یا احساسات میں گم نہیں کرتا۔
نتیجہ:
یہ نظام اس بات پر زور دیتا ہے کہ اللہ کا ارادہ ہماری سوچ سے ماورا ہے، وحی اُس ارادے کا مظہر ہے، اور پیغمبر اُس وحی کے زندہ نمونہ ہیں۔ انسان کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اس الہی نظام کو قبول کر کے اپنی ذات، سماج، اور دنیا کو بہتر بنائے۔ یہ نہ صرف ایمان کو عقل سے جوڑتا ہے بلکہ عمل کو بھی حقیقت سے ہم آہنگ کرتا ہے۔
اگر آپ چاہیں تو اس تعارف کو تعلیمی نصاب، اخلاقی تربیت، یا سماجی اصلاح کے سانچے میں بھی ڈھالا جا سکتا ہے۔ حکم کریں تو ہم اگلے مرحلے میں اس نظریہ کو "ماتُریدی-نَفسانی اخلاقیات" یا "نظامِ وحی پر مبنی سائنسی اصول" کی طرف لے جا سکتے ہیں۔
منتظرِ رہنمائی ہوں۔
Comments
Post a Comment