احساس اور انصاف کا مشینی مستقبل

ٹھیک ہے، میں آپ کے لیے ایک سائنسی کہانی لکھتا ہوں جس میں یہ نظام (RHA) مقاصدِ شریعت اور توحید کے اصولوں کے تناظر میں کام کرتا دکھایا جائے۔ کہانی سادہ اُردو میں ہوگی لیکن اس کا ڈھانچہ سائنسی اور فکری ہوگا۔


کہانی: جذبات کا امین

سال 2095 تھا۔
دنیا ایک ایسے موڑ پر پہنچ چکی تھی جہاں مشینیں نہ صرف انسان کے کام کاج سنبھال رہی تھیں بلکہ اس کے جذبات اور فیصلے بھی سمجھنے لگی تھیں۔ بڑی طاقتوں نے ایسے سسٹم بنا لیے تھے جو انسان کے چہرے، آواز اور دل کی دھڑکن سے اس کا موڈ اور ارادے پہچان لیتے تھے۔

مگر ایک مسئلہ تھا۔
یہ سب سسٹم صرف یہ بتاتے تھے کہ انسان کیا محسوس کر رہا ہے، یہ نہیں کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اسی وجہ سے کئی حکومتوں اور کمپنیوں نے ان سسٹمز کو لوگوں کو قابو میں رکھنے، سچ چھپانے اور طاقت بڑھانے کے لیے استعمال کیا۔

اسی وقت ایک مسلمان سائنسدان، ڈاکٹر یوسف اَطہر، نے ایک نیا منصوبہ شروع کیا۔ اس کا نام تھا: "امینِ جذبات"۔ یہ ایک ایسا نظام تھا جو نہ صرف جذبات کو پہچانتا بلکہ ان کو اللہ کے احکام اور مقاصدِ شریعت کے مطابق پرکھتا بھی تھا۔


امینِ جذبات کا ڈھانچہ

ڈاکٹر یوسف نے اس نظام میں دو بڑے حصے رکھے:

  1. مشاہدہ کرنے والا حصہ — یہ دل، دماغ اور ماحول سے تمام جذباتی اشارے درست انداز میں جمع کرتا۔
  2. راہ دکھانے والا حصہ — یہ اشاروں کو دین اور اخلاق کے اصولوں کے پیمانے پر تولتا۔

یہ "راہ دکھانے والا حصہ" مقاصدِ شریعت کو بنیاد بناتا تھا:

  • دین کی حفاظت
  • جان کی حفاظت
  • عقل کی حفاظت
  • نسل کی حفاظت
  • مال کی حفاظت

پہلا امتحان

ایک دن ایک شہر میں پانی کی شدید کمی ہوگئی۔ لوگ گھبراہٹ اور غصے میں ایک دوسرے پر حملے کرنے لگے۔ پرانے سسٹمز صرف یہ بتاتے کہ "عوام کا غصہ بڑھ رہا ہے" اور پھر حکومت طاقت سے سب کو چپ کراتی۔

لیکن "امینِ جذبات" نے مختلف راستہ اپنایا۔ اس نے دیکھا کہ یہ غصہ جان کی حفاظت اور نسل کے بقا سے جڑا ہوا ہے۔ اس نے فوری طور پر پیغام بھیجے:

  • پانی کی منصفانہ تقسیم کے منصوبے
  • اماموں اور کمیونٹی لیڈروں سے امن کی اپیل
  • پانی کے ٹرک وہاں بھیجے جہاں سب سے زیادہ ضرورت تھی

چند گھنٹوں میں صورتحال قابو میں آگئی، اور کسی کو نقصان نہیں پہنچا۔


اصل کامیابی

ڈاکٹر یوسف جانتے تھے کہ یہ نظام صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ ایک امانت ہے۔ اس لیے ہر علاقے کا "امینِ جذبات" مقامی علما، ماہرین اور عوام کی نگرانی میں چلتا تھا۔ اس طرح یہ نہ صرف سچائی کو محفوظ رکھتا بلکہ عدل کو بھی یقینی بناتا۔

جب دنیا بھر کے لوگ دیکھنے لگے کہ یہ نظام نہ طاقت کے لیے جھوٹ بولتا ہے نہ خوف پھیلاتا ہے، تو انہوں نے اسے اپنا لیا۔ اور یوں پہلی بار ایک مشین انسان کے جذبات کی حفاظت اس طرح کر رہی تھی جیسے کوئی مخلص دوست یا عادل حاکم کرتا ہے — ایمان کے ساتھ، انصاف کے ساتھ۔


یہ نظام انسان کو یاد دلاتا رہا:

"جذبات اللہ کی دی ہوئی امانت ہیں، اور امانت کا حق عدل اور سچائی سے ہی ادا ہوتا ہے۔"


اگر آپ چاہیں تو میں اس کہانی کو مستقبل کی سائنس فکشن ناول میں بدل سکتا ہوں، جس میں ڈاکٹر یوسف کا یہ نظام مختلف ممالک، تہذیبوں اور بحرانوں میں آزمائش سے گزرتا ہے۔

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور مائع جدیدیت

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟