علم اور حوالہ

یہ خلاصہ ایک ایسے تعلیمی نظام کے بارے میں ہے جو آنے والے صدیوں اور ہزاروں سالوں تک تحقیق کو محفوظ اور قابلِ استعمال رکھ سکے، خاص طور پر وہ تحقیق جو شائع ہونے کے باوجود کبھی حوالہ (Citation) نہ پائے۔


آسان تعارف:

اکثر اوقات کچھ تحقیقی کام بہت اہم ہوتے ہیں مگر انہیں کوئی حوالہ نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ یہ کام بھلا دیے جاتے ہیں، حالانکہ مستقبل میں یہ نئی دریافتوں کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں۔ اگر ہم صرف مشہور اور زیادہ حوالہ دی جانے والی تحقیق کو ہی سنبھالیں، تو ہم بہت سا قیمتی علم کھو سکتے ہیں۔

اس لیے ضروری ہے کہ:

  1. ہر تحقیق، چاہے اسے حوالہ ملا ہو یا نہیں، محفوظ کی جائے۔
  2. ایسی تحقیق کو وقتاً فوقتاً دوبارہ جانچا جائے کہ کہیں یہ آج کے مسائل کے لیے کارآمد تو نہیں۔
  3. نئی ٹیکنالوجی اور ذہین کمپیوٹرز پرانی تحقیق کو دوبارہ تلاش کر کے نئے علم سے جوڑ سکیں۔
  4. ادارے اس علم کو نسل در نسل سنبھال کر رکھیں تاکہ آنے والی صدیوں میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکے۔

اس طریقے سے ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ انسانی علم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو اور مستقبل کی نسلیں ہمارے آج کے کام سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں، چاہے وہ کام آج کم اہم لگتا ہو۔


کیا آپ چاہتے ہیں میں اس کا ایک بصری چارٹ بنا دوں جس میں "نظر آنے والا علم" اور "چھپا ہوا علم" واضح دکھائی دے؟ یہ اس تصور کو سمجھنے میں اور بھی آسان بنا دے گا۔

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور مائع جدیدیت

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟