افقہ اور اشجع

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

جمہوری ولایتِ افقہ و اشجع، فقہِ بیوع اور معاشی عدل

———

معاشرتی انصاف کا اصل امتحان محض کتابی دفعات یا فلسفیانہ دعووں میں نہیں، بلکہ عام انسان کے روٹی، کپڑا، مکان اور ایمان کے تحفظ میں ہے۔ ایک ایسا نظام جو افقہ (علم و فقہ کی بصیرت) اور اشجع (عدل و شجاعت کی عملی قوت) کو یکجا کرے، وہی عوام کے دل و دماغ میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین اپنی اساس میں یہی خواب رکھتا ہے مگر اس خواب کو عملی اور معاشی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے فقہِ بیوع (فقہ المعاملات) اور مقاصدِ شریعت کے عدل کو محور بنانا ہوگا۔


1. ولایتِ افقہ: علم و بصیرت کی رہنمائی

  • افقہ کا مطلب ہے اجتماعی علمی اجتہاد، یعنی معاملات کو صرف ایک فرد یا جماعت کی رائے پر نہ چھوڑا جائے بلکہ مختلف علما، ماہرینِ معیشت، قانون اور اخلاق کی شوریٰ کے ذریعے فیصلے ہوں۔
  • فقہِ بیوع کی بنیاد یہ ہے کہ لین دین میں انصاف، شفافیت، اور اعتماد ہو۔ نفع جائز ہے مگر استحصال ممنوع۔ سود (ربا)، دھوکہ (غرر)، اجارہ داری (احتکار) اور ظلم پر مبنی کمائی منع ہے۔
  • اس بصیرت کو آئینی اور قانونی ڈھانچے میں شامل کر کے "مارکیٹ" کو صرف آزاد نہیں بلکہ عادل بنایا جا سکتا ہے۔

2. ولایتِ اشجع: عدل کے نفاذ کی جرأت

  • صرف علمی رہنمائی کافی نہیں جب تک اس کے نفاذ کے لیے "اشجع" یعنی جرأت اور اخلاقی استقامت موجود نہ ہو۔
  • ولایتِ اشجع کا تقاضا ہے کہ ریاست کمزور اور محروم طبقے کے ساتھ کھڑی ہو۔
  • معاشی عدل کا مطلب ہے:
    1. مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے اجرت ملے۔
    2. زمین اور وسائل چند ہاتھوں میں مرتکز نہ ہوں۔
    3. سرمایہ دارانہ احتکار اور جاگیردارانہ جبر توڑا جائے۔
    4. زکوٰۃ و وقف کو معاشرتی بہبود میں زندہ ادارے بنایا جائے۔

3. روٹی، کپڑا، مکان اور ایمان کی تکمیل

  • روٹی:
    • زکوٰۃ، صدقات، بیت المال اور وقف کے ذریعے فاقہ کشی ختم کرنا۔
    • ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کو جرم بنانا۔
  • کپڑا:
    • مقامی صنعتوں اور چھوٹے کاروبار کی سرپرستی۔
    • تجارتی شفافیت تاکہ عوام پر غیر منصفانہ ٹیکس یا درآمدی دباؤ نہ ہو۔
  • مکان:
    • وقفِ رہائش اور اجتماعی ہاؤسنگ پروگرام۔
    • جاگیرداری اور زمینوں کی غیر منصفانہ تقسیم کا اصلاحی حل۔
  • ایمان:
    • عبادت اور اخلاق کے مواقع کو آسان بنانا، نہ کہ رکاوٹ ڈالنا۔
    • تعلیم، صحت اور انصاف کو ایسا نظام دینا جو انسان کو خوف اور محرومی سے آزاد کرے۔

4. آئینِ پاکستان کی روح اور معاشی عدل

  • آئین کہتا ہے کہ اقتدار اللہ کا ہے اور عوام صرف اس کی امانت دار ہیں۔
  • اس کا مطلب ہے کہ معیشت اور بازار بھی "امانت" ہیں، ذاتی مفاد کی جاگیر نہیں۔
  • اسلامی نظریاتی کونسل اور پارلیمان مل کر "افقہ" کی نمائندگی کر سکتے ہیں۔
  • ادارہ جاتی احتساب اور عدلیہ "اشجع" کے پہلو کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

5. فقہِ بیوع اور جدید معیشت

  • بینکنگ، تجارت، اور کارپوریٹ دنیا کو فقہِ بیوع کی کسوٹی پر جانچنا ہوگا۔
  • اسلامی مالیات محض "سود کو نیا نام دینے" کی چال نہیں، بلکہ اصل مقصد یہ ہے کہ سرمایہ عوامی ترقی میں لگے، استحصال میں نہیں۔
  • "مضاربہ، مشارکہ، وقف اور بیت المال" جیسے ادارے اگر زندہ ہوں تو معاشی عدل خود بخود بڑھتا ہے۔

6. نتیجہ: جمہوری ولایتِ افقہ و اشجع کا راستہ

  • پاکستان کو ایسا نظام چاہیے جو صرف "قانونی افقہ" نہ ہو بلکہ "عملی اشجع" بھی ہو۔
  • افقہ: معیشت میں شفاف اصول اور علمی رہنمائی۔
  • اشجع: عدل کے نفاذ کی ریاستی جرأت، خواہ بڑے سرمایہ دار یا جاگیردار اس کے خلاف ہوں۔
  • اس امتزاج سے آئین پاکستان محض تحریر نہیں رہے گا، بلکہ ایک زندہ عدل پر مبنی معاہدہ بنے گا جو عوام کو ایمان اور روزگار دونوں کا تحفظ فراہم کرے گا۔

✦ سادہ الفاظ میں:
اسلامی معاشی عدل کا مطلب ہے کہ بازار بھی عبادت گاہ کی طرح پاکیزہ ہو۔ جب افقہ (علمی شریعت) اور اشجع (عملی جرأت) مل کر چلیں گے، تبھی عام انسان کے لیے روٹی، کپڑا، مکان اور ایمان بیک وقت آسان اور مضبوط ہوں گے۔


کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں اس مضمون کو ایک "پالیسی خاکہ" میں بدل دوں، جیسے آئندہ پاکستان کے لیے ایک جامع معاشی منشور؟

Comments

Popular posts from this blog

قرآن اور مائع جدیدیت

سورہ یوسف اور خاموش انصاف

ذہانت کہاں استعمال کی جائے ؟