Posts

سنت نبوی اور مہدویت

Excellent — now you want to place Maududi’s constitutional Sunnah + Mahdian noopolitics in conversation with the twelve Imams’ archetypal qualities . This lets us think of Sunnah (present constitution) and Mahdi (future horizon) not as abstract binaries, but as lived virtues embodied across generations of Ahl al-Bayt. Here is a rewritten essay in that light: Sunnah, Mahdi, and the Archetypal Qualities of the Twelve Imams Maulana Maududi (رحمه الله) taught that the Sunnah of the Prophet ﷺ is the constitutional foundation of Islam — the lived grammar of revelation, turning the Qur’an into a functioning civilization. At the same time, he affirmed the coming of Imam Mahdi as a horizon of hope. Yet, unlike those who retreat into passivity, Maududi insisted that the Ummah must act here and now: to embody Sunnah is to shoulder responsibility; to anticipate Mahdi is to sustain courage. But how do we understand this dialectic more deeply? One way is to see it refracted through the twelv...

اختراع نحویت

Excellent and very precise question. Let’s break it down carefully. 1. The Word in Arabic Morphology The singular is faqīh (فقیه) → plural fuqahāʾ (فقهاء). If we want to say “those of broader horizons among the fuqahāʾ,” we need a construct that combines āfāq (آفاق = horizons) with fuqahāʾ . 2. “Āfāqiha” as You Wrote “Āfāqiha” (آفاقهة) is not a standard Arabic plural form. It looks like a neologism , blending āfāq (horizons) + fuqahāʾ (jurists), but it doesn’t follow the usual rules of Arabic word-formation. In Arabic grammar, such blending without iḍāfa (construct state) is considered irregular. 3. Grammatically Valid Alternatives If you want a classical-sounding, grammatically valid phrase , here are options: Wilāyat al-Fuqahāʾ al-Āfāq (ولاية الفقهاء الآفاق) → “The guardianship of the jurists of wide horizons.” Wilāyat al-Fuqahāʾ Dhawī al-Āfāq (ولاية الفقهاء ذوي الآفاق) → “The guardianship of the jurists possessing horizons.” Wilāyat Fuqahāʾ al-Āfāq ...

افقہ اور اشجع

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم جمہوری ولایتِ افقہ و اشجع، فقہِ بیوع اور معاشی عدل ——— معاشرتی انصاف کا اصل امتحان محض کتابی دفعات یا فلسفیانہ دعووں میں نہیں، بلکہ عام انسان کے روٹی، کپڑا، مکان اور ایمان کے تحفظ میں ہے۔ ایک ایسا نظام جو افقہ (علم و فقہ کی بصیرت) اور اشجع (عدل و شجاعت کی عملی قوت) کو یکجا کرے، وہی عوام کے دل و دماغ میں اعتماد پیدا کرتا ہے۔ پاکستان کا آئین اپنی اساس میں یہی خواب رکھتا ہے مگر اس خواب کو عملی اور معاشی ڈھانچے میں ڈھالنے کے لیے فقہِ بیوع (فقہ المعاملات) اور مقاصدِ شریعت کے عدل کو محور بنانا ہوگا۔ 1. ولایتِ افقہ: علم و بصیرت کی رہنمائی افقہ کا مطلب ہے اجتماعی علمی اجتہاد، یعنی معاملات کو صرف ایک فرد یا جماعت کی رائے پر نہ چھوڑا جائے بلکہ مختلف علما، ماہرینِ معیشت، قانون اور اخلاق کی شوریٰ کے ذریعے فیصلے ہوں۔ فقہِ بیوع کی بنیاد یہ ہے کہ لین دین میں انصاف، شفافیت، اور اعتماد ہو۔ نفع جائز ہے مگر استحصال ممنوع۔ سود (ربا)، دھوکہ (غرر)، اجارہ داری (احتکار) اور ظلم پر مبنی کمائی منع ہے۔ اس بصیرت کو آئینی اور قانونی ڈھانچے میں شامل کر کے "مارکیٹ" کو صر...

ولایت افقہ

بہت اہم اور باریک سوال ہے۔ آئیے اسے سادہ مگر گہرائی کے ساتھ سمجھتے ہیں: 1. ولایتِ فقیہ یہ نظریہ شیعہ اثنا عشری فکر سے جڑا ہوا ہے، خاص طور پر ایران میں آیت اللہ خمینی نے اسے عملی شکل دی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ "فقیہِ عادل اور مجتہد" غیر معصوم امام کی غیبت میں سیاسی و شرعی قیادت کا حق رکھتا ہے۔ اس میں طاقت ایک فقیہ کے ہاتھ میں مرکوز ہو جاتی ہے، اگر وہ واقعی عادل ہو تو نظام چل سکتا ہے، مگر اگر طاقت کا توازن اور احتساب کمزور ہو تو ظلم اور جمود کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ عدالت کا دارومدار زیادہ تر "شخصی تقویٰ اور دیانت" پر ہوتا ہے، ادارہ جاتی توازن کم ہوتا ہے۔ 2. ولایتِ افقہ یہ تصور کم معروف ہے مگر فکری طور پر ولایتِ فقیہ کے مقابل ایک زیادہ اجتماعی اور وسیع نظریہ سمجھا جا سکتا ہے۔ مطلب یہ کہ قیادت صرف ایک فقیہ کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ متعدد علما، اہلِ دانش، اور ماہرین اجتماعی طور پر امت کی رہنمائی کریں۔ اس میں ادارہ جاتی احتساب اور مختلف زاویوں کی شرکت کا امکان بڑھ جاتا ہے، یعنی زیادہ شوریٰ پر مبنی نظام بنتا ہے۔ اس ماڈل میں عدل زیادہ ممکن ہے کیونکہ طاقت ایک فرد...

جستجو کا افق

محترم انجینئر، آپ نے نَسٹ (NUST) پاکستان سے تعلیم مکمل کی ہے، جو نہ صرف پاکستان بلکہ خطے کی ایک معتبر اور معیاری درسگاہ سمجھی جاتی ہے۔ اس ادارے کی خاص پہچان انجینئرنگ، سائنس، ٹیکنالوجی اور مینجمنٹ میں بین الاقوامی معیار کی تعلیم دینا ہے۔ آپ کے فارغ التحصیل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے ایک ایسی علمی فضا میں تربیت پائی ہے جہاں تحقیق، جدت، اور عملی اطلاق کو یکجا کیا جاتا ہے۔ نَسٹ کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ یہ طلبہ کو صرف ڈگری نہیں دیتا بلکہ ان میں قیادت، خدمت، اور عالمی سطح پر حصہ لینے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اس تناظر میں، آپ کی شخصیت میں پہلے ہی وہ بیج بو دیے گئے ہیں جو آپ کو دنیا کے بڑے علمی اور فکری اداروں جیسے آکسفورڈ، کیمبرج، سی ای آر این، یا ویٹی کن کے علمی ڈھانچوں کے ساتھ مکالمہ کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ نَسٹ کی بنیاد پر آپ اپنی علمی جستجو کو بین الاقوامی افق تک وسعت دے سکتے ہیں اور اپنی شناخت ایک ایسے محقق یا فکری معمار کے طور پر قائم کر سکتے ہیں جو مشرق و مغرب کے درمیان فکری اور روحانی پُل کا کردار ادا کرے۔ کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کے لیے ایک پیشہ وران...

وجودیت بمقابلہ اخرویت

یہ موضوع بظاہر مشکل لگتا ہے، لیکن سادہ لفظوں میں یوں سمجھ لیں: فلسفہ اور سائنس زیادہ تر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کس چیز سے بنی ہے ، یعنی کائنات کا وجودی ڈھانچہ (Ontology) کیا ہے۔ ذرے ہیں، لہریں ہیں یا توانائی؟ یہ سوالات بنیادی طور پر "کیا ہے؟" کے گرد گھومتے ہیں۔ قرآن کا زاویہ اس سے مختلف ہے۔ قرآن زیادہ زور اس بات پر دیتا ہے کہ دنیا کا مقصد کیا ہے اور اس کا انجام کہاں ہوگا ، یعنی مقصد اور انجام (Teleology) پر۔ آسمان کا لپیٹا جانا، زمین کا بدل جانا، انسان کا حساب کتاب دینا — یہ سب نشانی ہیں کہ کائنات صرف "کیا ہے" کا سوال نہیں بلکہ "کیوں ہے اور کہاں جا رہی ہے" کا سوال بھی ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ: سائنس اور فلسفہ ہمیں بتاتے ہیں: کائنات کی بنیاد کیا ہے ۔ قرآن ہمیں یاد دلاتا ہے: کائنات کا انجام اور مقصد کیا ہے ۔ وجود (Ontology) ہمیں ناظر بناتا ہے، لیکن مقصد (Teleology) ہمیں ذمہ دار بنا دیتا ہے۔ اس لیے قرآن میں ontological سوالات کم اور teleological سوالات زیادہ ہیں — تاکہ انسان محض کائنات کا تماشائی نہ رہے بلکہ اپنی آخرت کا جواب دہ بنے۔ کی...

علم اور حوالہ

یہ خلاصہ ایک ایسے تعلیمی نظام کے بارے میں ہے جو آنے والے صدیوں اور ہزاروں سالوں تک تحقیق کو محفوظ اور قابلِ استعمال رکھ سکے، خاص طور پر وہ تحقیق جو شائع ہونے کے باوجود کبھی حوالہ (Citation) نہ پائے۔ آسان تعارف: اکثر اوقات کچھ تحقیقی کام بہت اہم ہوتے ہیں مگر انہیں کوئی حوالہ نہیں دیتا۔ وقت کے ساتھ یہ کام بھلا دیے جاتے ہیں، حالانکہ مستقبل میں یہ نئی دریافتوں کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں۔ اگر ہم صرف مشہور اور زیادہ حوالہ دی جانے والی تحقیق کو ہی سنبھالیں، تو ہم بہت سا قیمتی علم کھو سکتے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ: ہر تحقیق، چاہے اسے حوالہ ملا ہو یا نہیں، محفوظ کی جائے۔ ایسی تحقیق کو وقتاً فوقتاً دوبارہ جانچا جائے کہ کہیں یہ آج کے مسائل کے لیے کارآمد تو نہیں۔ نئی ٹیکنالوجی اور ذہین کمپیوٹرز پرانی تحقیق کو دوبارہ تلاش کر کے نئے علم سے جوڑ سکیں۔ ادارے اس علم کو نسل در نسل سنبھال کر رکھیں تاکہ آنے والی صدیوں میں بھی فائدہ اٹھایا جا سکے۔ اس طریقے سے ہم یہ یقینی بنا سکتے ہیں کہ انسانی علم کا کوئی حصہ ضائع نہ ہو اور مستقبل کی نسلیں ہمارے آج کے کام سے بھرپور فائدہ اٹھا سکیں، چاہے وہ کام آج ک...